امر ناتھ یاترا کشمیر کے لئے تُحفہ

Advertisement
Advertisement
- Advertisement -

محمدعارف ، کشمیر نیوز بیورو
مورخہ10 جولائی2017کے ایک اخبار میں یہ رپورٹ شائع ہوئی ہے کہ ’ہر سال یاترا کے دوران ہزاروں کی تعداد میں مسلمان ا پنی خدمات پیش کرتے ہیں بشمول اپنے خچروں ،گھوڑوں کو کرایہ پر دیتے ہیں اور بطور ایک پالکی والے کا کام کرتے ہیں۔سینکڑوں دوکاندار اور تاجر چلنے کی چھڑیاں، پوجا کے ائیٹمز ،کشمیری شال اور دستکاری کے چیزیں بھچنے کےلئے دوکان قائم کرتے ہیں۔ جنوبی کشمیر کولگام کے ایک مقامی شخص نذیر احمد لون کے مطابق ”ہم امرناتھ یاترا کا بے صبری سے انتظار کرتے ہیں،ہم چاہتے ہیں کہ یاترا پُر امُن طور سے اختتام پذیر ہوکیونکہ اس پر ہماری روزی و روٹی کا انحصار ہوتا ہے۔کاروبار کی ایک مثال ہے کہ ہر سال یاترا کے دوران فقط20 روپے فی چھڑی کے حساب سے 40لاکھ روپے مالیت کی چھڑیاںفروخت کی جاتی ہیں۔یاترا کے دوران خدمات فراہم والوں میں پیر پنجال کے جنوبی اضلاع بشمول ڈوڈہ، راجوری اور پونچھ کے ساتھ ساتھ وادی سے بھی تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہوتے ہیں۔محدود مدت کے دوران کمائی سخت سیکورٹی چیک اور مشکل ترین زندگی گُذارنے پر ہوتی ہے۔گُذشتہ سال امر ناتھ جی یاترا پر حملہ کے بعداطلاعات ہیں کہ مقامی لوگوں نے زخمیوں کو ہسپتال پہنچایا اوریہاں تک کہ خون کا عطیہ بھی دیا ۔کسی بھی یاتری گاڑی کو حادثہ ہونے پر مقامی لوگوں کی مدد دیکھنے میں ملتی ہے۔مقامی کشمیری کےلئے کامیاب امر ناتھ یاترا کا انعقاد وادی میں سیاحوں کی کافی تعداد کو آنے کا اشارہ ہے۔اس مدت کے دوران تشدُد کا منفی اثر ہوتا ہے۔2016کی یاترا مشکل ترین یاترا تھی کیونکہ اس سال یاترا برہان وانی کی ہلاکت کے ساتھ ہوئی۔یاتریوں کو شب کے دوران چلنا تھا کیونکہ دن میںمظاہرین احتجاج کرتے ہوئے سڑک بند کرتے تھے۔
ملک بھر کے کونے کونے سے ہزاروں کی تعداد میں شرکت کرنے والے لو گ امید ،اعتقاد اور اعتمادکے ساتھ جاتے ہیں۔ وادی میں ماحول کے متعلق جانکاری ہونے کے باوجود بیشتر لوگ اس یاترا میں جاتے ہیں،جو ہر عمر کی گروپ کے ہوتے ہیں۔ یاترا کی سیکورٹی کےلئے ذمہ وار سیکورٹی فورسز پر اُنہیں پورا اعتماد ہے۔وہ مشکل ترین پہاڑیوںکو چڑھنے اورمشکل موسمی حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے پوری طرح سے تیار ہو کر آتے ہیں۔ دہشت پسندوں نے گُذشتہ سال یاتریوں پر حملہ کیاکیونکہ انہوں نے کشمیری بھائیوں کے ساتھ ا پنے آپ کو محفوظ سمجھا تھا۔علاوہ ازیں، غیر متوقع طور سے گاڑی کا پنچر ہوا ،جس سے وہ تقریبا ً کھلا نشانہ بن گئے۔یاتری، امر ناتھ جی کی گُپھا پر جانے سے قبل کشمیر کے حالات سے فقط میڈیا کے ذریعہ سے جانکاری حاصل کرتے ہیں۔میڈیانے ہمیشہ سے کہا ہے کہ کشمیر میں شورش ہے۔ اسطرح سے یاتری بے اعتمادی اور شکوک و شبہات کے سائے میں یاتراکرتے ہیں،ہر ایک کشمیری کو بھارت مخالف دیکھتے ہیں۔ اس یاترا کے دوران،یاتری متعددمقامات پر ٹھہرتے ہیںاور عام کشمیریوں کے ساتھ تبادلہ خیال کرتے ہیں،جو کہ بنیادی کیمپ سے آگے ریاست کی بیشتر آبادی ہوتی ہے ،کیا وہ حقیقت کو سمجھتے ہیں۔وہ محسوس کرتے ہیں کہ بیشتر لوگ سخت محنتی،سادہ لوح انسان ہوتے ہیںاور اپنے بچوں کی اچھی دیکھ بال کرتے ہیں جیسے کہ کسی دیگر ہندوستانی کی طرح۔یاترا کے دوران یاتری خوبصورت کشمیر سے گُذرتے ہیں۔وہ ریاست کے بطور ایمبیسڈر کے کام کرتے ہیں، اسے ایک سیاحتی مقام کے طور پیش کرتے اور عام کشمیری سے حاصل ہوئے تصورات کو پھیلاتے ہیں، جن کے ساتھ یاترا کے دوران ان کی گفتگو ہوتی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ حزب المجاہدین کمانڈر نے یاترا شروع ہونے سے قبل ایک پیغام بھیجا،جس میں بتایا گیا کہ ا ٓپکو کوئی سیکورٹی کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ آپ ہمارے مہمان ہیں۔اُنہیں یہ احساس ہے کہ یاتریوں کو نشانہ بنانا غیر انسانی عمل ہے ۔وہیںکچھ عناصرکا مقصد اسکے برعکس ہے۔
اس بار یہ بات یقینی بنانی ہوگی کہ کوئی بھی گاڑی بتائے گئے راستے سے نہیں جائیگی جیسے کہ پچھلے سال ہوا تھا۔سرکار نے اب ہر ایک گاڑی کو RFID نصب کیا ہے۔بغیر شیڈول کے ٹھہرنے کو واضع طور پر ممنوع کر دیا گیا ہے۔۔وہاں پر کشیر ایجنسیاں ہیں،جن کی کام کو تال ومیل بنانے کی ضر ورت ہے کیونکہ سیکورٹی ایک بڑا مسئلہ ہے۔موسم ہمیشہ سے ہی ایک بڑی روکاوٹ ہے کیونکہ بھاری بارش سے سڑکیں بند ہوسکتی ہیں اور یاترا کے چلنے میں تاخیر ہوتی ہے، جس سے آنے والے دنوں ، جب موسم صاف ہو،پر دباﺅ بڑھ جاتا ہے۔وہاں پر ہمیشہ سے ہی طبی خطرات کا ڈر لگا رہتا ہے،جس کا علاج اور باز آباد کاری کی ضرورت ہوتی ہے، جس کے لئے ذمہ واریاں بانٹی گئی ہیں تاہم، وہاں پر غیر متوقع طور سے بھی کُچھ ہوتاہے۔اسلئے ایک پُر امُن یاترا کے کافی فوائد ہوتے ہیں۔اس سے سیاحت کو فروغ حاصل ہوتا ہے،جس سے مقامی لوگوںکو آمدنی مہیا ہوتی ہے اور حقیقی کشمیری کے لئے ایک پیغام بھیجتا ہے۔جو ایک مرتبہ یاترا میں شرکت کرتے ہیں،ہمیشہ سے ہی اسے دوہرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ملک کےلئے یاتراکشمیر اور دیگرملک کے درمیان رشتے مستحکم بنانے میں اہم ہے۔(کے این بی)

Our Social Networks

join our wHATSAPP CHANNEL

 

Advertisement

Latest

Advertisement

Related Articles

Advertisement
error: Content is protected !!