جرمن جوڑاقومی کونسل برائے اردو زبان کے کشمیر کتاب میلے میں توجہ کا مرکز کیوں بنا؟

’میں نے وہ ترجمے بھی دیکھے جہاں اس کا اردو میں ترجمہ بلیاں اور کتے برس رہے ہیں، کیا گیا تھا“

Advertisement
Advertisement
- Advertisement -

جرمن جوڑاقومی کونسل برائے اردو زبان کے کشمیر کتاب میلے میں توجہ کا مرکز کیوں بنا؟
از:۔ ظہور حسین بٹ
سری نگر/ (یو این آئی) کشمیر یونیورسٹی میں جاری 23 ویں کل ہند اردو کتاب میلے میں گزشتہ روز وہاں موجود افراد بالخصوص طلبا اُس وقت ورطہ حیرت میں پڑ گئے جب جرمنی سے تعلق رکھنے والے ایک جوڑے نے نہ صرف ڈھیر ساری اردو کتابیں خریدیں بلکہ میلے میں لگے ہر ایک اسٹال پر اپنی دلچسپی کی کتابیں ڈھونڈنے میں گھنٹوں صرف کئے۔55 سالہ ڈیٹر بخت اور ان کی اہلیہ بابرا بخت نے پہلے اردو کی معروف ترین لغت ‘فرہنگ آصفیہ’ خریدی۔ ڈیٹر کے مطابق وہ اسی لغت کی تلاش میں ہی میلے میں آئے تھے۔ تاہم انہوں نے ‘فرہنگ آصفیہ’ خریدنے پر ہی بس نہیں کیا بلکہ قرة العین حیدر کا مشہور ناول ‘آگ کا دریا’ کے علاوہ کشمیر اور تصوف پر متعدد کتابیں خریدیں۔میلے میں ڈیٹر اور اُن کی اہلیہ کو اردو کتابوں کی ورق گردانی اور خریداری میں مصروف دیکھ کر وہاں موجود افراد بالخصوص طلبا ششدر ہوکر رہ گئے اور اس نامہ نگار نے طلبا کے ایک گروپ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ‘دیکھو اردو کہاں سے کہاں پہنچ چکی ہے اور ہم ہیں کہ اسے گڈ بائی کہتے جارہے ہیں’۔ڈیٹر بخت نے یو این آئی اردو سے ٹھیٹ اردو میں بات کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اردو 25 سال کی عمر میں جرمنی کی یونیورسٹی آف ٹیوبنگن میں پڑھائی کے دوران سیکھی ہے۔ ڈیٹر جو نئی دہلی کی ایک پبلشنگ کمپنی ‘گڈ ورڈ’ سے وابستہ ہیں، کا کہنا ہے کہ ‘میری اردو میں بہت زیادہ دلچسپی تھی اور یہی دلچسپی میرے اس فیلڈ میں آنے کا وجہ بنی’۔اردو سے محبت کرنے والے ڈیٹر بخت اس زبان کے بارے میں کہتے ہیں: ‘اردو بہت ہی میٹھی زبان ہے۔ جب میں اس زبان میں کتابیں پڑھتا ہوں تو دل کھل جاتا ہے۔ اس زبان کو بہت لوگ پڑھتے اور بولتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اردو کا میدان بہت ہی وسیع ہے’۔یہ پوچھے جانے پر کہ اردو کو مزید فروغ کیسے دیا جاسکتا ہے، ڈیٹر کا کہنا تھا: ‘میرا ماننا ہے کہ دلچسپ کتابیں شائع کرنے سے اس زبان کو مزید فروغ دیا جاسکتا ہے۔ بدقسمتی سے انڈیا میں فرقہ پرستی کی فضا پیدا ہوئی ہے اور نتیجتاً اس میٹھی زبان کا کچھ نقصان ہوا ہے’۔ڈیٹر نے بتایا کہ انہیں اردو اخبارات میں شائع ہونے والے ایک اشتہار سے معلوم ہوا کہ کشمیر یونیورسٹی میں قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے اہتمام سے 23 واں کل ہند اردو کتاب میلہ جاری ہے۔انہوں نے بتایا: ‘میں نے اخبار میں پڑھا کہ کشمیری یونیورسٹی میں اردو کتابوں کا میلہ لگا ہوا ہے۔ دراصل میں سری نگر سے شائع ہونے والے کچھ اردو روزنامے بھی پڑھتا ہوں۔ اخبارات میں، میں نے کتاب میلے کا اشتہار دیکھا تو میں اپنی بیوی کو ساتھ لے کر چلا آیا۔ یہاں کافی لوگ آئے ہوئے ہیں۔ وہ کتابیں خرید رہے ہیں اور مجھے امید ہے کہ وہ پڑھیں گے بھی’۔ان کا مزید کہنا تھا: ‘میں یہاں اردو لغت فرہنگ آصفیہ کی تلاش میں آیا تھا وہ مجھے مل گئی۔ یہ لغت بہت پرانی مگر بہت فائدہ بخش ہے۔ آج کل مارکیٹ میں بہت کم ملتی ہے۔ قرة العین حیدر کا مشہور ناول آگ کا دریا بھی لے لیا۔ اس کے علاوہ کشمیر اور تصوف سے متعلق کچھ کتابیں خریدیں۔ میں ہر ایک اسٹال پر جارہا ہوں اور دیکھ رہا ہوں کہ کونسی کتاب میرے کام کی ثابت ہوسکتی ہے۔ یہ میلہ 23 جون تک ہے اور ہم یہاں ایک بار پھر آنے کا ارادہ رکھتے ہیں’۔ڈیٹر بخت نے بتایا کہ وہ نئی دہلی کی ایک پبلشنگ کمپنی ‘گڈ ورڈ’ سے وابستہ ہیں اور ان کا کام یہ دیکھنا ہے کہ انگریزی کتابوں کا اردو میں صحیح ترجمہ ہوا ہے یا نہیں۔انہوں نے بتایا: ‘میں گڈ ورڈ نامی ادارے کے لئے ایڈیٹنگ کا کام کرتا ہوں۔ جن کتابوں کا انگریزی سے اردو میں ترجمہ ہوا ہے اُن کو دیکھتا ہوں۔ میں دیکھتا ہوں کہ ترجمہ صحیح ہوا ہے یا نہیں۔ انگریزی میں محاورہ ہے اٹس از ریننگ کیٹس اینڈ ڈاگس۔ میں نے وہ ترجمے بھی دیکھے جہاں اس کا اردو میں ترجمہ بلیاں اور کتے برس رہے ہیں، کیا گیا تھا۔ اس طرح کی غلطیوں کو ٹھیک کرنا میرا کام ہے’۔ڈیٹر اردو کے ساتھ ساتھ وادی کشمیر سے بھی بہت محبت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم یہاں چار پانچ سال رہنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے بتایا: ‘میں کشمیر میں اکتوبر 2018 کے اواخر سے ہوں۔ ہم چاہتے ہیں کہ چار پانچ سال یہاں رہیں۔ لیکن یہ حکومت پر انحصار کرتا ہے کہ وہ ہمارے ویزا میں توسیع کرتی ہے یا نہیں۔ کشمیر تو بہت ہی اچھی جگہ ہے۔ الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔ یہاں کے لوگ بھی بہت اچھے ہیں۔ ہمیں یہاں کبھی کوئی خطرہ محسوس نہیں ہوا’۔ڈیٹر کی اہلیہ بابرا ثقافتی سرگرمیوں میں بہت دلچسپی رکھتی ہیں اور وہ سری نگر میں سٹی واکنگ ٹیور منعقد کرانے کا پروگرام رکھتی ہیں۔ انہوں نے بتایا: ‘میں اصل میں جرمن ٹیچر ہوں۔ مگر فی الحال میں ادھر گھر کا کام دیکھتی ہوں۔ میں ثقافتی سرگرمیوں میں بہت دلچسپی رکھتی ہوں۔ میں یہاں بہت جلد ایک سٹی واکنگ ٹیور کا انعقاد کروں گی۔ کشمیر بہت ہی خوبصورت جگہ ہے۔ میرا تو دل چاہتا ہے کہ ہم ہمیشہ یہیں رہیں’۔

Our Social Networks

join our wHATSAPP CHANNEL

Advertisement

Latest

Advertisement

Related Articles

Advertisement
error: Content is protected !!