کشمیر: نوجوانوں کی فنی صلاحیت کو ابھارنا لازمی

Advertisement
Advertisement

کشمیر میں کئی لوگوں نے ادبی تنظیمیں اس لئے بنائی ہیں کہ وہ ایک دوسرے کے شعروں کو داد دیں ایک دوسرے کو انعامات سے نوازیں اور ایک دوسرے کی پزیرائی کریں اور وہ اپنی چالبازیوں سے ادب پر چھائے رہتے ہیں ایک اور بات جو میں کافی عرصے سے دیکھ رہا ہوں کہ کئی لوگوں کا یقین صرف لابی ازم پر ہی ہے وہ نوجوان شاعروں اور قلمکاروں اور گانے والوں کو اسی قالب میں پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں جس قالب میں وہ پرانے اور برگزیدہ شاعروں، قلمکاروں اور فنکاروں کو پرکھتے ہیں۔

ازقلم: بشیر اطہر
ادبی اصطلاح میں تنقید کا مطلب ہے تبصرہ کرنا اور اگر عام اصطلاح میں لیا جائے تو اس کا مطلب ہے ایسی جانچ جو اچھے اور برے، کھرے اور کھوٹے میں تمیز کرے۔ مگر میرا عام اصطلاح سے یہاں کوئی لینا دینا نہیں ہے البتہ ادبی اصطلاح سے ہے جس کےلیے ہر ادب نواز کو جاننا چاہیے کئی لوگ کسی کی شاعری، افسانہ، ناول انشائیہ پر اس لئے تنقید نہیں کرتے ہیں کہ وہ یا تو اس سے ناواقف ہیں یا تنقید کرنا غلط سمجھتے ہیں۔ بلکہ میرا ماننا ہے کہ تنقید کرنا اچھا عمل ہے جس کا مقصد ایک طفلِ اسپ کو کوڑے مارنا نہیں ہے بلکہ اس کو ایسے گنوں سے آشنا کرنا ہے یا ایسے گن سکھانا ہے جن سے وہ طفل سواری کے قابل بنےنہ کہ تیز دوڑ کر سوار کو گرائے۔ اس کا مطلب ایک دوسالہ طفل کو انگلی پکڑ کر چلنا سکھانا ہے اسی لیے تنقید میں ایک قلمکار کی صلاحیت کو ابھارنا ہے نہ کہ اس کی فنی صلاحیت کو حوصلہ شکنی کا شکار بنانا ہے عام طور سے تنقید میں ایک قلمکار ،شاعر یا افسانہ نگار کے لفظوں کا برتاو¿، اتار چڑاو¿، رموز، اوزان اور علم عروض پر بات ہورہی ہے مگر فنی صلاحیت پر بات نہیں ہوتی ہے اس لئے جس کے کلام میں یہ سارے گن پائے جاتے ہیں تو اس کو ایک کامیاب اور مکمل شاعر گردانا جاتا ہے۔ مگر کئی ایسے شاعر بھی ادبی دنیا میں جنم لیتے ہیں جو ان سب باتوں سے باخبر ہوتے ہیں ان کو نکھارنا اور ان کی فنی صلاحیت کو بروئے کار لانا نقاد اور ادب نوازوں کا کام ہوتا ہے مگر اکثر ناقدین ایسے کلام کو سدھارنے کے بجائے بلا جواز غیر معقول سمجھ کر اس کو کوڑے دان میں ڈالتے ہیں اور رفو چکر ہونے میں ہی اپنی بھلائی سمجھتے ہیں اس طرح سے نئے نئے قلمکار اور شاعر جنم لینے سے پہلے ہی فوت ہوجاتے ہیں یا یہ کہا جائے کہ ادب نوازوں اور ناقدین کے پاو¿ں تلے دب جاتے ہیں اور اس کے بعد بھی ناقدین اور ادب نواز انجمنوں، محفلوں اور سبھا میں ایوان صدارت پر بیٹھ کر مگر مچھ کے آنسوں بہاتے ہیں اور ماتھا پیٹتے ہیں کہ ہماری آنے والی نسل ادب سے کوسوں دور ہے۔ اسی وجہ سے کئی انجمنیں لابی ازم کی شکار ہوئی ہیں اور کئی شخص پرستی کی۔ کئی انجمنیں شاعروں اور افسانہ نگاروں کے کلام پر واہ واہ کرتے ہیں مگر ان کو سدھارنے کی کوشش ہرگز نہیں کرتے ہیں جس کی وجہ سے راقم جیسے سادہ لوح شاعر سب کچھ بھول جاتے ہیں اور کچھ ہی عرصے بعد ان کا نام ونشان تک مٹ جاتا ہے میری باتیں کڑوی بھی ہیں لیکن شائد غور طلب بھی ہوں گی میں نے اس موضوع پر اس لئے خامہ فرسائی کی تاکہ ناقدین اور ادب نواز مکڑی کی طرح اپنے ہی جال تک محدود نہ رہیں بلکہ اپنا دائرہ ادب وسیع کرکے باقی لوگوں کو بھی اس وسیع وعریض میدان میں جگہ فراہم کریں۔ ناقدین کو چاہیے کہ وہ کسی کے کلام پر واہ واہ کرنے کے بجائے اس پر تبصرہ کرکے اس کی خامیوں کو دور کرنے کی کوشش بھی کریں یا یہ کہا جائے کہ تنقید برائے تعمیر ہونا چاہیے نہ کہ اس کی فنی صلاحیت کو مسخ کرنا چاہیے۔ کئی نقاد کسی کی شاعری یا افسانوں پر تبصرہ یا تنقید کرنا اپنے وقت کو ضائع کرنے کے مترادف سمجھتے ہیں یا یہ کہا جائے کہ وہ ایسا اس لئے بھی کرتے ہیں تاکہ کوئی دوسرا ان کے مقابل کھڑا نہ ہوجائے یا ان کے مقام تک پہنچ جائے۔ اس لئے میرا ناقدین اور بڑے بڑے شعراء سے مشورہ ہے کہ وہ اپنے نونہال شاعروں، افسانہ نگاروں اور انشائیہ نگاروں کو اپنی فنی صلاحیت سے فیضیاب کریں تاکہ ایک سلسلہ چلتا رہے جو نوجوان شعراءہیں اگر ان کی شاعری پر کوئی تنقید کرے تو ان کو میدان چھوڑ کر نہیں جانا چاہیے بلکہ میدان کارزار میں مستحکم و مضبوطی سے رہنا چاہیے اس میں مخاصمت کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور یہ سمجھیں کہ تنقید کرنے کی بات مخاصمت نہیں ہے بلکہ سدھار اور پزیرائی ہے ناقدین کو بھی یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ وہ بات گ±ما گما کر پیش نہ کریں بلکہ سیدھے سادھے الفاظ میں اس کو سمجھائے کہ بیٹا یہاں اس لفظ کے بجائے اگر یہ لفظ استعمال کریں تو کلام میں اور زیادہ مٹھاس پیدا ہوجائے۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ تنقید کرنا کلام میں مائکروب نہیں دیکھنا ہے کہ جس کےلیے مائکروسکوپ کی ضرورت پڑے بلکہ اس کے لئے ٹیلیسکوپ یعنی دور بین کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ ادیب موجود ہے البتہ تھوڑا دور۔ جس کو دور بین سے دیکھنے کی ضرورت ہے تاکہ اس کو دیکھا جائے اور اس کی فنی صلاحیت کو ابھارا جائے اور اگر ایسا نہ ہوا تو یہ ایک چونٹی کی طرح مسل جائے گا۔ اسی لیے میں یہاں ایک کشمیری کہاوت پیش کرنا چاہتا ہوں کہ “رییہ چ±ھ آسان شبنمئے کافی”ایک بات طے ہے کہ ادب اس وقت بکے ہوئے ہاتھوں میں ہے جب اس کو ان ہاتھوں سے چھٹکارا یا آزادی ملے گی تو ایسے ادیب، دانشور اور قلمکار سامنے آئیں گے کہ لوگ سب بھول جائیں گے کشمیر میں کئی لوگوں نے ادبی تنظیمیں اس لئے بنائی ہیں کہ وہ ایک دوسرے کے شعروں کو داد دیں ایک دوسرے کو انعامات سے نوازیں اور ایک دوسرے کی پزیرائی کریں اور وہ اپنی چالبازیوں سے ادب پر چھائے رہتے ہیں ایک اور بات جو میں کافی عرصے سے دیکھ رہا ہوں کہ کئی لوگوں کا یقین صرف لابی ازم پر ہی ہے وہ نوجوان شاعروں اور قلمکاروں اور گانے والوں کو اسی قالب میں پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں جس قالب میں وہ پرانے اور برگزیدہ شاعروں، قلمکاروں اور فنکاروں کو پرکھتے ہیں اس سے صاف ظاہر ہورہا ہے کہ ان کے پاس پرکھنے کا کوئی آلہ ہی نہیں ہوتا ہے اگر ان کے پاس ایسا آلہ ہوتا تو یہ ایک سیر کو ایک کوئنٹل سے وزن نہیں کرتے بلکہ ان کا وزن بڑھانے کےلئے ان کو دانہ ڈالتے۔ان کی فنی صلاحیت کو ابھارنے کی کوشش کرتے۔اس لئے سبھی ادبی حلقوں کو چاہیے کہ وہ نوجوان قلمکاروں، ادیبوں اور فنکاروں کی فنکارانہ صلاحیت کی حوصلہ افزائی کریں اور انہیں بھی داد دیں تاکہ وہ بھی آگے بڑھنے میں کوئی شرم محسوس نہ کریں۔ اگر انہیں شرم محسوس ہوئی توایسا کرنے سے روزبروز قلمکاروں کی کمی محسوس کی جائے گی۔یہ لوگ کسی کا میراث نہیں کھائیں گے بلکہ ان سے ہمارا معاشرہ آگے ہی بڑھے گا۔کشمیر میں اس وقت لگ بھگ سینکڑوں ادبی تنظیمیں فضول میں رجسٹرڈ ہیں کیونکہ ان پر بہت سارے رقومات کلچر بچانے کےلیےاور نوجوانوں کی تربیت کےلیے خرچ ہوتا ہے مگر زمینی سطحوں پر ان کا کام منفی ایک بھی نہیں ہے ان کا کام صرف یہی ہے کہ وہ مشاعروں میں شاعروں کو لاکر واہ واہ کرتے ہیں فوٹو اٹھاتے ہیں اور رستہ کباب پارٹیاں کرکے خزانہ آمرہ کو دو دو ہاتھوں سے لوٹتے ہیں یہ تنظیمیں زمینی سطحوں پر نوجوانوں کی تربیت نہیں کرتے ہیں جس کی وجہ سے اس وقت ہمارے پاس نوجوان قلمکاروں، ادیبوں اور فنکاروں کے تعداد میں کمی واقع ہورہی ہے ریاستی کلچرل اکیڈمی بھی فوٹو شاپنگ کو روپے فراہم کر رہی ہے جس کی وجہ سے ان کی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان لگ رہا ہے لوگ فوٹو شاپنگ کرکے ان سے کافی تعداد میں روپے ہڑپ رہے ہیں اس لئے اکیڈمی کو بھی کوئی لائحہ عمل اپنانے کی ضرورت ہے تاکہ یہ ادارہ جو کبھی آزاد ہواکرتا تھا فیوریٹزم کا شکار نہ ہوجائے۔بات اگرچہ کڑوی ہے مگر سچائی پر بھی منحصر ہے میرا مقصد کسی کی دلآزاری نہیں کرنا ہے بلکہ میرا مقصد ان ادیبوں، قلمکاروں، فنکاروں اور ادبی انجمنوں کو جگانا ہے جو خواب خرگوش میں ہیں اور نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کرنے سے کوسوں دور ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہوکہ ایسے ادیبوں، قلمکاروں اور فنکاروں کا ایک گروپ وجود میں آجائے جو آپ سب کو غرق کرکے لے جائیےگا اور آپ ڈوبتے ڈوبتے یہ کہیں گے کہ
رام تیری گنگا میلی ہوگئی
پاپیوں کا پاپ دھوتے دھوتے

Our Social Networks

join our wHATSAPP CHANNEL

Advertisement

Latest

Advertisement

Related Articles

Advertisement
error: Content is protected !!