اداریہ نگاری

اردو صحافت کے ابتدائی دور میں اداریہ نویسی کے کوئی اصول و ضوابط مقرر نہیں تھے ۔ مدیر یا رپورٹر خبروں کے درمیان جہاں ضروری سمجھتا وہاں اپنی رائے لکھ دیتا اور خبروں کے مشکل پہلوؤں کی تشریح کرتا چلا جاتا۔

Advertisement
Advertisement
- Advertisement -


پیر محمد عاقب با با، بانڈی پورہ

اخبار میں خبروں کے علاوہ اور بھی مواد شامل ہوتا ہے۔ جس میں اداریہ کی اہمیت اور افادیت مسلم ہے۔ اداریہ ” مدیر، یا ” اداریہ نویس ” کے اظہار خیال کو کہتے ہیں۔ یہ وہ صحافتی مقالہ ہے جس سے اخبار کی پالیسی ظاہر ہوتی ہے۔ اسے انگریزی میں Editorial یا Lead Editorial کہا جاتا ہے ۔اداریہ کو مقالہ افتتاحیہ بھی کہتے ہیں۔ جس صفحہ پر اداریہ شائع ہوتا ہے اسے ادارتی صفحہ کہا جاتا ہے۔ صحافتی اصطلاح میں اداریہ سے مراد وہ مضمون ہے جو اخبار یا رسالے کے ادارتی صفحہ پر اخبار کے نام کی
تختی کے نیچے چھپتا ہے۔

اداریہ اس مضمون کو کہتے ہیں جو کسی ہنگامی موضوع پر لکھا گیا ہو اور جس میں قاری کی ایسی راہ پر ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے جو مضمون نگار کے خیال میں صحیح راہ ہے۔ اداریہ نویس قاری کو اپنے نقطہ نظر سے متفق کرنے کی کوشش کرتا ہے اور ایسی باتیں لکھتا ہے جس سے قاری قائل ہوجائے اور موافق ردعمل ظاہر کرے ۔ اداریہ نویس نویس مختلف ترغیبی طریقوں سے کام لے قاری کے جذبات وہ احساسات کو جائز طور پر متاثر کرتا ہے۔

اداریہ کسی اہم واقعہ کی تشریح اور تفہیم کا نام ہے۔ جس میں کسی اہم واقعہ کا پس منظر ، تجزیہ اور دلائل کی روشنی میں اس کا پس منظر بھی بیان کیا جاتا ہے۔ یہ آئینہ ہوتا ہے۔ محض ادارتی صفحہ کی بنیاد پر ہی ہم کسی بھی دو اخباروں میں فرق محسوس کرسکتے ہیں۔ کیونکہ ہر اخبار میں خبر چھپتی ہیں اور اسی (80) فیصد سے زائد خبروں میں یکسانیت ہوتی ہے۔ کیوں کہ خبریں مختلف خبر رساں اداروں سے بیجھی ہوئی ہوتی ہیں اس لیے ادارتی صفحہ ہی اخبار اور اس کے مزاج کا تعارف کرواتا ہے۔ ” دو اخباروں کو ایک دوسرے سے جو چیز ممتاز اور جدا کرتی ہے وہ ادارتی صفحہ ہے “۔

اداریہ نگاری کا مقصد اہم مسائل کی تشریح و توضیح کرنا ، صالح و ترقی پسند رجحانات کو فروغ دینا ، رائے عامہ کی تشکیل کرنا ، بہتر سماج کی تعمیر کرنا اور قارئین کو غور وفکر کی عادت ڈالنا ہے ۔

اردو صحافت کے ابتدائی دور میں اداریہ نویسی کے کوئی اصول و ضوابط مقرر نہیں تھے ۔ مدیر یا رپورٹر خبروں کے درمیان جہاں ضروری سمجھتا وہاں اپنی رائے لکھ دیتا اور خبروں کے مشکل پہلوؤں کی تشریح کرتا چلا جاتا۔ اس طرح سے خبر نما اداریہ یا اداریہ نما خبریں لکھی جانے لگیں ۔ تحریک آزادی کے دوران اردو اخبارات نے ان ہی خبروں یا اداریوں کی بدولت عوام میں آزادی کی روح پھونک دی تھی اور ہر ایک کے سینے میں انقلاب کی چنگاریاں سلگ اٹھی تھی ۔

لارڈ کی کینگ نے کہا تھا ،:- اس بات کو لوگ نہ تو جانتے ہیں اور نہ سمجھتے ہیں کہ گزشتہ چند ہفتوں میں دیسی اخباروں نے شائع کرنے کی آڑ میں ہندوستانی باشندوں کے دلوں میں دلیرانہ حد تک بغاوت کے جذبات پیدا کر دیے ہیں۔ یہ کام بڑی مستعدی، چالاکی اور عیاری کے ساتھ انجام دیا گیا ہے ۔ “

اصولی طور پر اداریہ تحریر کرنے کی ذمہ داری ایڈیٹر پر عائد ہوتی ہے۔ ابتدائی دور میں ایڈیٹر ہی اداریہ تحریر کیا کرتے تھے لیکن آج کے موضوعات کا دائرہ کافی وسیع تر ہیں اور کسی بھی موضوع پر اداریہ لکھنے کے لیے مضمون پر مہارت درکار ہوتی ہے۔ اس لیے ہر اخبار میں سب ایڈیٹر اداریہ نویس یا دیگر کسی حیثیت سے کام کرنے والے افراد مقرر ہوتے ہیں جو اپنے اپنے موضوعات پر مہارت رکھتے ہیں ۔ ان اداریہ نویسوں کو کئی خصوصیات کا حامل ہونا چاہیے۔ یہ ضروری ہے کہ اداریہ نویس کو مختلف علوم و فنون سے واقف بھی ہونا چاہیے ۔ اس میں تخلیقی و تنقیدی صلاحیتیں بہ درجہ اتم ہونا چاہیئں ۔ یہ ضروری ہے کہ اداریہ نویس محقق ذہن کا مالک ہو ۔ وہ جو بھی اعداد و شمار دے ، پوری ایمانداری سے دے ۔ حقائق سے چشم پوشی کرنا اداریہ نگار کے شان کے خلاف ہے ۔ وہ اداریہ نگاری کے فن سے واقف ہو ۔ اداریہ کے اصول (principle) اور ہیت ( form) اور اس کے لکھنے کے آداب سے واقف ہونا ہو ۔ اسے توہم پرستی، فرقہ پرستی، فرقہ پروری ، علاقہ واریت اور لسانی تعصب سے گریز کرنا چاہیے۔ اداریہ نویس کو اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ اس کی تحریر یا اس کی آواز، فرد واحد کی آواز نہیں ہے بلکہ ایک اداریہ، اخبار یا ایک معاشرے کی آواز ہے۔ اس لیے اسے متوازن، معاملہ فہم اور دور اندیش ہونا چاہیے

1. اداریہ کسی اہم یا غیر معمولی موضوع پر لکھا جاتا ہے ۔اداریہ کے آغاز میں واقعات یا حقائق کو مختصر بیان کیا جاتا ہے پھر واقعہ کے اہم پہلو کی تشریح و توضیح کی جاتی ہے ۔ واقعہ کی تجزیہ کیا جاتا ہے اور ٹھوس دلائل کی روشنی میں کوئی رائے قائم کی جاتی ہے ۔ آج کے دور میں چونکہ مسائل زیادہ ہیں اس لیے اخبارات میں ایک سے زائد اداریے لکھے جاتے ہیں۔ پہلا مضمون اداریہ کہلاتا ہے۔ اس کے بعد لکھا جانے والا مضمون ( شزرہ) کہلاتا ہے ۔ اس طرح ادارتی صفحہ پر اداریہ کے علاوہ شزرہ، کالم، قارئین کے خطوط، کارٹون وغیرہ شائع کیے جاتے ہیں۔ اس صفحہ پر اشتہار اور خبروں کو شائع کرنے سے پرہیز کیا جاتا ہے۔
گو کہ اداریہ بہت ہی کم لوگ پڑھتے ہیں لیکن قارئین کا یہ طبقہ، دانشور طبقہ کہلاتا ہے۔

Our Social Networks

join our wHATSAPP CHANNEL

Advertisement

Latest

Advertisement

Related Articles

Advertisement
error: Content is protected !!