تحریر: نصیر گنائی
ترجمہ : بلال بشیر بٹ
جموں کشمیر اکیڈمی آف آرٹ، کلچر اینڈ لینگوئجز کےزیر اہتمام چلایا جارہا لال چوک سری نگر میںواقع’ کتاب گھرــ‘ جہاں کشمیری ادب پر تحریر کتابیںفروخت ہوتی ہیں کسی زمانے میں کشمیری زبان کے ادیبوںکا ٹھکانہ ہوا کرتا تھا۔وقت گذرنے کے ساتھ اس دکان پر مجموعہ کم ہوتا جا رہا ہے۔ دکان کے فروخت کنندہ فاروق احمد کا کہنا ہے کہ دکان میں کشمیری زبان میں محض دو ترجمے دستیاب ہیں۔ ایک کشمیری شاعرہ حبہ خاتون کی نظموں کا ترجمہ اور دوسرا پروفیسر شفیع شوق کی تاریخ حسن کا ترجمہ ہے۔ نمایاں طور پر دکھائی جانے والی کتابوں میں پاکستان سے انتظار حسین کا کشمیری ترجمہ ہےجو 2013 میں مین بکر پرائز کے فائنلسٹوں میں شامل
تھا۔
’ کتاب گھرــ‘ سے قلیل دوری پر واقعـ گلشن بک سٹور‘ کے مالک شیخ عجاز احمد کہتے ہیں کہ کشمیری سے انگریزی میں ترجمہ شدہ زیادہ تر ترجمہ پروفیسر شوق نے کیا ہے۔اس دکان میں کشمیری زبان کے معیاری دستور العمل اور کشمیری زبان کی ایک لغت کی کاپیاں بھی موجود ہیں، جو دونوں برطانوی سرکاری ملازم اور ماہر لسانیات جارج ابراہم گریئرسن نے 20ویں صدی کے پہلے نصف میں لکھی تھیں۔وہ کہتے ہیں “لیکن لوگ عام طور پر انہیں نہیں خریدتے ہیں۔ کشمیری زبان میں دلچسپی رکھنے والے کچھ اسکالرز ہی ایسی کتابیں مانگتے ہیں،‘‘ ۔
انیس سو چالیسکی دہائی سے لے کر اب تک کشمیری ادیبوں نے روسی ادب کا ایک بڑا حصہ کشمیری میں ترجمہ کیا ہے لیکن وہ کتابیںخاص طور پر مظفر عظیم کا جنگ اور امن کا کشمیری ترجمہ اور غلام نبی خیال کا عمر خیام کی رباعیات کو انتہائی سراہاگیا تاہم یہ تراجم وادی میں کسی بک شاپ پر دستیاب نہیں ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ 1989 میں وادی میںسیاسی بے یقینی کے بعدہر ایک کی زندگی متاثر ہوئی۔اگر چہ اس دور میں ادیبوں نے کشمیر کی روزمرہ کے حالات اور واقعات کی عکاسی کی تاہم ایسا مانا جاتا ہے کہ مادری زبان کشمیر میں زیادہ کچھ خاص نہیں لکھا گیا۔
اس کے برعکس انگریزی میں لکھنے والےمصنفین کوکافی حد تک سراہاگیا۔ جہاں بشارت پیر کی کرفیوڈ نائٹ، مرزا وحید کا دی کولیبریٹر، فیروز راتھر کا پہلا افسانہ ناول، دی نائٹ آف بروکن گلاس اور فرح بشیر کی رمز آف اسپرنگ کو کشمیر پر ضرور پڑھی جانے والی کتابوں میں شمار کیا جاتا ہے، لیکن کشمیری زبان میں لکھنے والے مصنفین کی شاید ہی کوئی مثال اس حوالےسے دی جاسکتی ہے ۔ کشمیری ادب کےممتازمصنف اختر محی الدین کا نام حالانکہ اس تناظر میں قابل ذکر ہے۔
کشمیری زبان کے لکھنے والوں کو نئی نسل وادی کے حالات کی عکاسی کرنے کے بجائے کشمیری رومانوی ناول اور شاعری لکھنے کو ترجیح دینے پر مسترد کر دیتی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جو لوگ کشمیری لکھاریوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں وہ خود بھی کشمیری نہیں پڑھ سکتے۔ اس کے علاوہ یہاں بہت سے لوگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ ترجمہ اور تخلیقی تحریر دو مختلف چیزیں ہیںجس لحاظ سے کشمیر اس وقت مقامی اور عالمی چیلنجوں کے خلاف سخت جدوجہد کر رہا ہے۔
مقامی طور پراگر جائزہ لیا جائے توکشمیری زبان کا کوئ صیح معنوں میں اپنانے والا کوئی نہیں ہے۔ صرف کچھ سرکاری ملازمتیں ایک ایسے شخص کے لئے میسر ہیں، جو کشمیری زبان میں کام کرتا ہے اور بولتا ہے۔ نیز وادی کشمیر میںمتوسط طبقے کے خاندان اپنے بچوں کو اردو یا انگریزی بولنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ بچے کشمیری میں بات نہیں کرتے، یہاں تک کہ کریچ اور اسکولوں میں بھی انگریزی کو بھی دیگر زبانوں پر ترجیح دی جاتی ہے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ کشمیری رسم الخط کافی حد تک اردو رسم الخط (نستعلیق) کی طرح ہے اور یہی وجہ ہے کہ اردو سے واقفیت رکھنے والےانتھک کوششوں کے بعدکم ازکم کشمیری پڑھ سکتے ہیں، لیکن اس بات پر اختلاف ہے کہ ان میں سے کس زبان کا رسمی رسم الخط ہونا چاہیے۔ مرحوم جی این گوہر کا آئین ہند کا ترجمہ ابھی وزارت قانون کی منظوری کے لئے زیر التوا ہے کیونکہ مصنف نے اس کا ترجمہ نستعلیق رسم الخط میں کیا تھا۔
تاریخی طور پر کشمیری زبان اتنی ہی قدیم ہے جتنی انگریزی زبان،ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ یافتہ کشمیری شاعر اور کشمیر یونیورسٹی کے شعبہ کشمیر کے سابق سربراہ پروفیسر شفیع شوق یہ دلیل دیتے ہیں کہ کشمیری دیگر جنوبی ایشیائی زبانوں سے مختلف ہے۔ بلغاریہ اور البانیہ کی زبانیں ہندی یا اردو سے زیادہ کشمیری سے جڑی ہوئی ہیں۔ 2010 میںپروفیسر شوق نے آٹھ سال تک اس پر کام کرنے کے بعد ایک کشمیری لغت تیار کی، کیشر لغات (کشمیری زبان کی لغت)،جو تقریباً ہر شعبے میں ایک لاکھ سے زیادہ اندراجات کے ساتھ 1400 صفحات پر پھیلی ہوئی ہے۔جب ترجمے کی اہمیت کے بارے میں پوچھا گیا اور اس نے کشمیری کو کیسے تقویت بخشی ہے، تو پروفیسر شوق کہتے ہیںـ’’یہ ایک حقیقت ہے کہ کشمیری زبان اب صرف بولی جاتی ہےاور تحریری شکل میں نہیں ہے۔ـتحریری ادب کا آغاز 14ویں صدی میں ہوا جب شیخ نورالدین جیسے ادیب سنسکرت اور فارسی کے ادب سے متاثر ہوئے۔کشمیری زبان ایک تحریری زبان کے طور پر سامنے آئی جس میں ادب تھا۔ تب سے بنیادی طور پر ترجمہ نے ہماری زبان کو تقویت بخشیـ۔ـ‘‘
ان کا مزید کہنا ہے کہ میر عبداللہ بیہقی اور محمود گامی نے اس سمت میں اہم کام کیا۔ فارسی ادب کے تقریباً تمام شاہکار کشمیری میں ترجمہ کیے گئے ہیں۔ یہاں تک کہ سنسکرت ادب کی کلاسیکی بھی مکمل ہو چکی ہے۔
پروفیسر شوق کا کہنا ہے کہ 1947 کے بعد یونانی ڈرامے، شیکسپیئر کے ڈرامے، ٹالسٹائی کے ناول، چیخوف کے ڈرامے اور کہانیاں کافکا اور دیگر کاموں جیسے متعدد عالمی معیار کے کاموں کا کشمیری میں ترجمہ کیا گیا۔ “ان تراجم کی وجہ سے کشمیری زبان میں مختلف اصناف کا ادب سامنے آیا۔ تاہم کشمیری کو انگریزی اور دیگر جدید زبانوں میں ترجمہ کرنے کے لیے کوئی سنجیدہ کام نہیں کیا گیا۔ـ‘‘
ان کے مزید کہنا ہے کہ یوروپیوں کی طرف سے اہم کام کیا گیا ہے۔ کارل برکھارڈ نے 1874 میں محمود گامی کی یوسف زلیخا مٹھنوی کا ترجمہ کیا۔ جارج ابراہم گریئرسن نے بہت سے کام انگریزی میں پیش کیے۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہتا تو ہمارا پورا ادب یورپی زبانوں میں ڈھل جاتا۔میں نے خود کوشش کی ہے کہ 14ویں صدی کے ادیبوں کے بہت سے کاموں کا ترجمہ کروں۔ ترجمہ میں میرا تمام کام شائع ہو چکا ہے، پھر بھی مجھے یہ کہتے ہوئے افسوس ہو رہا ہے کہ کوئی بھی اس کے بارے میں نہیں جانتا، اس تلخ حقیقت کو چھوڑ کر کہ مجھے ابھی تک کوئی قاری نہیں ملا۔
مصنفہ فرح بشیر کہتی ہیں کہ کشمیری ادیب جو انگریزی میں لکھتے ہیں وہ محسوس کرتے ہیں کہ ترجمے کی کمی نے کشمیری ادب کا ایک خزانہ دنیا سے دور رکھا ہوا ہے۔ لل دید کے بعد سے خواجہ حبیب اللہ نوشیری اور شمس فقیر جیسے بہت سےصوفی شاعر ہوئے جنہوں نے کشمیری شاعری میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔
بیسویں صدی کے اوائل میں، غلام احمد مہجور اور عبدالاحد آزاد جیسے لوگ کشمیر میں جدیدیت کے علمبردار تھے۔ کشمیری زبان میں زیادہ تر ادب تیار کیا جو ثقافتی طور پر جدید دور سے ہم آہنگ تھا۔ 1950 کی دہائی کے اوائل میں کشمیری مصنفین دینا ناتھ ندیم، رحمان راہی، امین کامل، غلام نبی خیال، بنسی نردوش اور دیگر نے مختصر کہانیوں کو بڑے پیمانے پرلکھا۔
اشوکا یونیورسٹی میں انگریزی کے اسسٹنٹ پروفیسر عبیر بزاز کہتے ہیں کہ شاعری کا ترجمہ کرنے کے لئے آپ کو بہت اچھے مترجمین کی ضرورت ہے۔ بزاز کا کہنا ہے کہ کشمیری زبان میں چند اچھے افسانہ نگار ہیں جن کی کہانیاں انتھالوجی میں شائع ہوئی ہیں۔مختصر کہانیوں کا دوسری زبانوں میں ترجمہ ہونے پر بآسانی وسیع تر سامعین مل سکتے ہیں۔ لیکن جب تحریر کا معیار جزوی طور پر ناہموار اور جزوی طور پر کشمیری ہو، تو اس میں بہت سے اچھے مترجم نہیں ہوتے۔
سنگم ہاؤس نے کشمیر میں مترجمین کے لئے ایک ورکشاپ کا اہتمام کیا تھا اور اس طرح کے اقدامات تبدیلی کا باعث بن سکتے ہیں۔ اس کے باوجود اس صورت حال کی اصل وجہ یہ ہے کہ کشمیری زبان جو مختلف برادریوں کو ذات پات، طبقے اور مذہب کے اعتبار سے متحد کرتی تھی 1953 میںریاست نے اپنی حیثیت کھونے کے بعدیہ امر نظر اندازہوگیا۔
بزاز کہتے ہیں ’’عظیم کشمیری شاعر امین کامل نے اسے درست انداز میں کہا ہے: (ہم کشمیری ہیں کشمیری کی وجہ سے/اس کے بغیر کوے بیابانوں میں کھو گئے)۔
بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ کشمیری زبان کو بچانے کےلئے کی جانے والی طفل تسلی کے مانند کوششوں نے صورت حال کو مزید خراب کر دیا ہے اور اس سے شاعروں اور مصنفین کو کسی بھی طرح سے مدد نہیں ملی ہے۔ ایک اور مسئلہ کشمیری زبان کا فروغ حکومت جیسے ساہتیہ اکادمی اور جموں و کشمیر اکیڈمی آف آرٹ، کلچر اینڈ لینگوئجز پر ہی منحصر رہا جس نے ادیبوں کو ادب کے لحاظ سے بیرونی دنیا کا تصور کرنا مشکل بنا دیا ہے۔
عبیر بزاز کہتے ہیں،اگرچہ ان اداروں نے کچھ قابل ذکر کام کیا ہے، لیکن ایک منفی پہلو بھی ہےکہ کشمیری زبان بدستور ذلت اور شرمندگی سے دوچارہے، لیکن کشمیر میں ثقافتی آزادی کی کوششیں حالات کا رخ موڑ سکتی ہیں اور کشمیر میں کشمیری ادب کا ایک نیا پھول کھلنے کےساتھ ہی اچھے مترجم بھی مل سکتے ہیں۔