محمد ہارون عباس قمر
پاکستانی سیاست میں اخلاقی اقدار کی گراوٹ ، بدزبانی اور ٹی وی کے ٹاک شوز میں سیاستدانوں کے ایک دوسرے پر ذاتی زبانی و جسمانی حملے وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتے جارہے ہیں۔ سیاسی بیانات میں گالم گلوچ، جنسی نوعیت کے فقرے، مخالفین کی کردار کشی، اور خواتین سیاستدانوں کو خاص طور پر نشانہ بنانے کا عمل نہ صرف سیاسی ماحول کو آلودہ کر رہا ہے بلکہ عوامی شعور پر بھی منفی اثرات مرتب کر رہا ہے۔ یہ مسئلہ محض ایک وقتی رجحان نہیں بلکہ اس کی جڑیں پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پیوست ہیں، جہاں اقتدار کی جنگ میں اخلاقی حدود کو بارہا پامال کیا گیا۔
پاکستان کی سیاست میں ناشائستگی اور فحش گوئی کی تاریخ پرانی ہے، مگر جیسے جیسے میڈیا اور سوشل میڈیا کا دائرہ وسیع ہوا، یہ رویے مزید نمایاں ہو گئے۔ اس رویے کی جڑیں ابتدا ہی سے موجود تھیں، جب مادر ملت فاطمہ جناح کو 1965 میں ایوب خان کے خلاف انتخابات میں حصہ لینے پر نشانہ بنایا گیا۔ ایوب خان کے حامیوں نے کراچی اور گوجرانوالہ میں فاطمہ جناح کی توہین کے لیے ایک کتیا کو دوپٹہ اور لالٹین پہنا کر گلیوں میں گھمایا۔اور اسے محترمہ کی ذات سے موسوم کیا گیا۔ ان حامیوں میں موجودہ دور کے اہم سیاستدانوں کے بزرگ بھی شامل تھے۔ یہ پہلا موقع تھا جب کسی خاتون سیاستدان کو اس قدر ذلیل کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس واقعے نے پاکستانی سیاست میں ناشائستگی کے ایک خوفناک رجحان کو جنم دیا، جس کے اثرات آنے والے عشروں میں مزید شدت اختیار کرتے گئے۔
ضیاءالحق کے دور (1977-1988) میں خواتین کو دبانے کے لیے قوانین متعارف کرائے گئے، جن میں حدود آرڈیننس شامل تھے، جنہیں عورتوں کے خلاف ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی، بینظیر بھٹو کے خلاف 1988 کے انتخابات میں نازیبا مہم چلائی گئی، جس میں انہیں “پیلی ٹیکسی” جیسے نعروں کے ذریعے، عوام میں بدنام کرنے کی کوشش کی گئی۔ “کوکا کولا پیپسی، بینظیر ٹیکسی” جیسے الفاظ عام کیے گئے۔ راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے سیاستدان شیخ رشید نے خاص طور پر اس مہم کو مقبول بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔
مسلم لیگـ (نواز شریف) کے حامیوں نے بینظیر اور ان کی والدہ نصرت بھٹو کی ایڈیٹ شدہ فحش تصاویر چھاپ کر عوام میں تقسیم کیں، یہاں تک کہ ہیلی کاپٹروں سے یہ تصاویر پھینکی گئیں تاکہ ان کی سیاسی ساکھ کو مکمل طور پر تباہ کیا جا سکے۔
1990 کی دہائی میں بھی اسی نوعیت کے حملے جاری رہے، جب بینظیر بھٹو نے اپنے مخالفین کو “باسٹرڈ” کہہ کر مخاطب کیا، جو اس بات کا ثبوت تھا کہ ناشائستگی اور فحش گوئی کا دائرہ کار صرف مرد سیاستدانوں تک محدود نہیں بلکہ مجموعی سیاسی ماحول پر اثرانداز ہو چکا تھا۔
عمران خان کی سابقہ اہلیہ جمائما گولڈ سمتھ کو انگریز ہونے کی بنیاد پر غیر ملکی ایجنٹ قرار دیا گیا اور ان پر بے بنیاد الزامات لگائے گئے۔
سیاسی عدم برداشت پاکستانی سیاست میں ایک عام رویہ بنتا جا رہا ہے، جہاں نظریاتی اختلافات کو ذاتی دشمنی میں تبدیل کر دیا جاتا ہے۔چند برس قبل سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگ کےرکن اسمبلی خواجہ آصف نواز نے شیریں مزاری کو قومی اسمبلی میں “ٹریکٹر ٹرالی”جیسے توہین آمیز الفاظ سے پکارا، جو نہ صرف خواتین کے خلاف نفرت کا اظہار تھا بلکہ یہ اس بات کا بھی عکاس تھا کہ کس طرح پارلیمنٹ میں بھی غیر مہذب زبان معمول بن چکی ہے۔ جس کے بعد شریں مزاری نے اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کیا تھالیکن عدالت نے شیریں مزاری کی درخواست خارج کر دی ۔
اسی طرح مریم نواز کو عمران خان کی جانب سےجلسے میں سرعام طنزیہ انداز میں مخاطب کرتے ہوئے کہا گیا کہ وہ بار بار میرا نام لے کر اپنے شوہر کو ناراض کر رہی ہیں، جو کہ ایک انتہائی ذاتی نوعیت کی غیر شائستہ تنقید تھی۔ بلاول بھٹو کو “مرد”ہونے کے باوجود “میڈم”کہہ کر پکارا گیا، اور شیخ رشید جیسے سیاستدانوں نے ان کی جنس پر نازیبا تبصرے کیے۔
یہی رویہ حالیہ برسوں میں مزید شدت اختیار کر گیا جب عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے بارے میں عدت کی مدت کے متعلق تنازع کھڑا کیا گیا، اور سوشل میڈیا پر انہیں نہایت بے ہودہ اور غیر شائستہ طریقے سے نشانہ بنایا گیا۔اسی طرح پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والی رکن اسمبلی شرمیلا فاروقی اور متعدد مخالفین مریم نواز کوبھاگ کر شادی کرنے کا طعنہ مسلسل دیتے رہے ہیں۔ نواز شریف اور شہباز شریف کے ان کے مخالفین ان کے مبینہ معاشقوں اور شادیوں کے حوالے سے بھی ہدف تنقید بناتے رہتے ہیں۔
ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے دور میں سیاستدانوں کے خلاف سیکس ٹیپس اور آڈیو لیکس کو بطور ہتھیار استعمال کیا جانے لگا۔ عمران خان کے حوالے سےعائلہ ملک کے ساتھ مبینہ آڈیو لیکس منظر عام پر آئیں، جس کے بعد یہ سلسلہ تیزی سے بڑھتا گیا۔
یہی طریقہ کار 2023 میں بھی دہرایا گیا، جب مختلف سیاستدانوں کی نجی گفتگو یا ویڈیوز کو ایڈٹ کر کے عوام میں بدنام کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔جن میں سابق گورنر سندھ اور پاکستان مسلم لیگ کے پارلیمینٹرین محمد زبیر کی ایڈٹ شدہ ویڈیوز شامل ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ کے پارلیمنٹرین رانا تنویر حسین نے اسمبلی میں عمران خان کی والدہ اور اہلیہ پر نازیبا تبصرے کیے۔
یہ تمام عوامل پاکستانی معاشرے پر انتہائی منفی اثرات مرتب کر رہے ہیں۔ ایک جانب نوجوان نسل کے لیے سیاست گالی گلوچ اور غیر مہذب بیانات کا کھیل بن چکی ہے، جبکہ دوسری جانب جمہوری روایات متاثر ہو رہی ہیں۔ جب عوامی سطح پر سیاسی مباحثہ اخلاقی اقدار سے خالی ہو جائے تو لوگ سیاست سے متنفر ہونے لگتے ہیں، جس کے نتیجے میں جمہوریت کمزور ہوتی ہے۔
خواتین سیاستدانوں کو خصوصی طور پر نشانہ بنانے کے سبب، خواتین خود کو غیر محفوظ تصور کرتی ہیں۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں خواتین کو ہر وقت کردار کشی کے خطرے کا سامنا ہو، وہاں صنفی مساوات ممکن نہیں رہتی۔
اگر اس رجحان کو روکا نہ گیا تو معاشرہ مزید انتشار اور عدم برداشت کی طرف بڑھے گا۔ سیاسی قیادت، قانون، میڈیا، اور عوام سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ پاکستان میں ایک مثبت، باوقار اور شائستہ سیاسی کلچر پروان چڑھ سکے۔
join our wHATSAPP CHANNEL